سچائی یا جمھوریت: بادشاہ اور بے حس جمھور
Posted: Monday, 29 September 2014 by Umar in
0
سچائی یا جمھوریت: بادشاہ اور بے حس جمھور
عمر شہزاد
آخر عمران خان پاکستان کو مسلسل نقصان کیوں پھنچا رھے ھیں؟ سیاست کے لئے ملکی معیشت کو نقصان کیوں پہنچایا جا رھا ھے؟ دھرنے دے کر ملک میں انتشار کیوں پھیلایا جا رھا ھے؟ ملک میں مسائل ھیں، مگر کیا تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں کوئی انقلاب لے کر آئی ھے؟ ظاھرًا یہ وہ معقول سوالات ھیں جو ان دھرنوں کی مخالفت میں پوچھے جا رھے ھیں۔
مگر ذرا ایک لمحے کے لئے اگر ھر تعصب اور ’’مصلحت‘‘ جس کا پرچار مختلف سیاستدان اور تجزیہ کار کر رھے ھیں کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور اس بات کو بھی تھوڑی دیر کے لئے چھوڑ دیا جائے کے احتجاج کا طریقہ کار درست ھے یا غلط ۔ اورسوچا جائے کہ کیا عمران خان اور تحریک انصاف کا مئی ۲۰۱۳ کے انتخابات کی جانچ پڑتال کا مطالبہ غلط یا غیر آئنی ھے؟
اس چیز سے قطع نظر کہ آیا انتخابات میں دھاندلی کا دعوہ درست بھی ھے یا نھیں(باوجود اس بات کے کہ قومی اسمبلی کے جوائنٹ سیشن میں بھی دھاندھلی کا اعتراف کیا جا چکا ھے)، ھر ذی شعور شخص کو یہ بات آج ماننی پڑ رھی ھے کہ انتخابات جس سے ملک کی قسمت کا فیصلہ ہوتا ھے، اس کی جانچ پڑتال کا مطالبہ ھر سیاسی جماعت کا حق ھے۔ اگر یہ مطالبہ درست ھے تو آخر اس بنیادی اور سادہ سے مطالبے کو رد کیوں کیا جاتا رھا ھے؟ اگرپی ٹی آئی کے دعوں کے برعکس عوام کا مینڈیٹ واقعی میں چوڑی نھیں کیا گیا تو حکومت کے پاس تو ایک انتہائی اچھا موقع تھا کہ وہ عمران اور ان کی پارٹی کو جھوٹا ثابت کر کے اگلے انتخابات کے لئے بھی حجت قائم کر دیتی، مگر ایسا نہ کیا گیا۔
تو گویا یہ بات تو طے ھو گئی کہ انتخابات کی جانچ پڑتال کا مطالبہ بالکل جائز اور مناسب ھے مگر بھت سے پاکستانیوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رھی ھے کہ اس دھرنے سے ملک کا بہت نقصان ھو رھا ھے، اس لئے اس میں شرکت ملک دشمنی کے مترادف ھے۔
اس موضوع پر جو دلائل دئے جاتے ھیں،ان کو بہت تواتر کے ساتھ استعمال کیا جاتا رھا ھے۔ ان میں بھت سی باتیں درست بھی ھیں، مگر معاملہ یہ ھے کہ یہ سوالات اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے استعمال کئے جا رھے ھیں۔ اس بات کی وضاحت کے لئے کہ اصلی مسئلہ کیا ھے، آپ کو ایک بادشاہ اور اس کی جمھور کا قصہ سنائے دیتا ھوں:
ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ ایک ملک کا بادشاہ مر گیا تو اس کی سلطنت بادشاہ کے واحد بیٹے کے حوالے کر دی گئی۔ یہ وہ ملک تھا جس کو کوئی قابل ذکر بیرونی خطرات لاحق نا تھے۔ بادشاھت کا عھدہ سمبھالنے کے کافی عرصے بعد تک بھی اس کی رعایا میں سے جب کوئی فریاد کرنے والا نا آیا تو بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ آخر اس کی رعایا اس کے پاس اپنے مسائل پیش کرنے کیوں نہیں آتی، تو وزیر نے بادشاہ کو بتایا کہ اس کی وجہ یہ ھے کہ ملک کے حالات بہت احسن انداز میں چل رھے ھیں، اس لئے آج تک اس قوم کا کوئی باشندہ اپنی فریاد لے کر بادشاہ کے پاس نہیں آیا۔ بادشاہ کو وزیر کی بات سن کر پہلے تو کچھ اطمینان ھوا مگر اس نے اپنی بوریّت دور کرنے کے لئے اپنی رعایہ کے لئے کچھ خود ساختہ مسائل کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا۔
بادشاہ نے اپنے ایک دربان کوشہر کے سب سے اہم پُل پر مامور کر دیا اور اس کو شاہی حکم نامہ جاری کیا، جس کے مطابق اس پُل پر سے گزرنے والے ھر شخص کی سزا ایک کوڑا متعین ھوئی۔ بادشاہ کا خیال یہ تھا کہ اُس کےاس نامناسب اور غیر ضروری حکم نامے کے خلاف شکایت کرنے کے بہانے اس کی رعایہ اس کے دربار میں آئے گی۔ مگر جب ایک ہفتہ گذر جانے کے باوجود بھی اس کے پاس کوئی نا آیا تو اس نے ایک کوڑے کی بجائے دو کوڑوں کی سزا متعین کر دی۔
چند دنوں کے بعد جب بادشاہ کے وزیر نے اسے یہ بتایا کے چند لوگ بادشاہ کے سامنے ایک شکایت پیش کرنے آئے ھیں، تو بادشاہ کو اطمینان ھوا کے اس کا منصوبہ بالآخر کامیاب ھو گیا ھے۔ بادشاہ نے اپنی رعایہ کے نمائندگان کو اپنے دربار میں بُلا کر استدعا کی اجازت دی تو ان میں سے ایک شخص نے انتہائی ادب کے ساتھ گزارش کی: ’’بادشاہ سلامت، آپ نے شہر کے جس پُل پر اپنا وہ دربان کھڑا کر رکھا ھے جو ھر گزرنے والے کو دو کوڑوں کی سزا دیتا ھے، وہ ایک انتہائی اھم پُل ھے۔ ھمیں معلوم ھے کے آپ کے اس حکم نامے میں لازمًا کوئی مصلحت ھے، مگر گزارش یہ ھے کے اُس پُل سے ھم سب شہریوں کوروزانہ گُزرنا پڑتا ھے، اور پُل پر صرف ایک دربان کی موجودگی سے ھم لوگوں کو اپنی اپنی منزل تک پھنچنے میں بہت دیر ھو جاتی ھے۔ بادشاہ سلامت، آپ سے گزارش یہ ہے کے اس پُل پر صرف ایک کی بجائے دو دربان متعین کئے جائیں تاکہ ھمارا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچ سکے‘‘۔
ھمارا حال بھی کسی حد تک اُس بادشاہ کی قوم جیسا ھی ھے، مگر فرق اتنا ھے کے کافی ارصہ کوڑوں کی سزا بھگتنے کے بعد اب کچھ لوگ نا انصافیوں کے خلاف کھڑے ھو نا شروع ھو گئے ھیں، جس کی وجہ سے ھماری مصروفیات میں خلل آنے کی وجہ سے ھم میں سے کچھ لوگ اس احتجاج کے ھی خلاف ھو گئے ھیں، اور اصل مسئلے کو پہچاننے سے قاصر معلوم ھوتے ھیں۔